ہندوستان کی سرزمین ترجمۂ قرآن کی دولت سے محروم نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بہت سے فارسی اور اردو تراجم بساطِ علم پر موجود تھے جن میں لفظی اور بامحاورہ ترجمے، مختصر حواشی یا جامع تفاسیر سبھی شامل تھے۔ ایسے میں ذہن میں یہ سوال بار بار انگڑائیاں لیتا ہے کہ پہلے تراجم کی موجودگی میں ایک نئے ترجمے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ کہ اس نے مسلم معاشرے پر کیا اثرات مرتب کیے؟۔۔۔ اِنہی سوالات کے جوابات پروفیسر الیاس اعظمی صاحب میں زیرِ نظر کتاب میں پیش فرمائے ہیں۔